عاشق ترے لاکھوں ہوئے مجھ سا نہ پھر پیدا ہوا
عاشق ترے لاکھوں ہوئے مجھ سا نہ پھر پیدا ہوا
تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا
مدت ہوئی الفت گئی برسوں ہوئے طاقت گئی
دل مضطرب ایسا نہ تھا کیا جانیے اب کیا ہوا
کل صبح سیر باغ میں دل اور میرا رک گیا
بلبل نہ بولا منہ سے کچھ گل ٹک نہ مجھ سے وا ہوا
وے دن گئے جو یاں کبھو اٹھتا تھا دل سے جوش سا
اب لگ گئے رونے جہاں پل مارتے دریا ہوا
کتنوں کے دل بے جاں ہوئے کتنے نہ جانا کیا ہوئے
چلنے میں اس کے دو قدم ہنگامہ اک برپا ہوا
مستی میں لغزش ہو گئی معذور رکھا چاہیے
اے اہل مسجد اس طرف آیا ہوں میں بہکا ہوا
جوں حسن ہے اک فتنہ گر توں عشق بھی ہے پردہ در
وہ شہرۂ عالم ہوا میں خلق میں رسوا ہوا
فرہاد و مجنوں ووں گئے ہم اور وامق یوں چلے
اس عارضے سے چاہ کے وہ کون سا اچھا ہوا
یا حرف خط ہے درمیاں یا گیسوؤں کا ہے بیاں
کیا میرؔ صاحب کے تئیں پھر ان دنوں سودا ہوا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0714
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.