عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایۂ باختگاں
قمار خانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہ گزر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میرؔ سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1112
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.