اپنے موئے بھی رنج و بلا ہے ہم سایوں کی جانوں پر
اپنے موئے بھی رنج و بلا ہے ہم سایوں کی جانوں پر
کیا کیا سینہ زنی رہتی ہے درد و غم کے فسانوں پر
میں تو کیا کیا حرف و سخن تھے میرے جہاں سے جاتے رہے
باتیں درد آگیں ہیں اب تک کیسی کیسی زبانوں پر
تو بھی رباط کہن سے صوفی سیر کو چل ٹک سبزے کی
ابر سیہ قبلے سے آ کر جھوم پڑا مے خانوں پر
آمد و رفت نسیم سے ظاہر رنجش بلبل ہے لیکن
باؤ بھی اب تک بہی نہیں گلہائے چمن کے کانوں پر
جیغہ جیغہ اس کی سی ابرو دل کش نکلی نہ کوئی یاں
زور کیے لوگوں نے اگرچہ نقش و نگار کمانوں پر
جان تو یاں ہے گرم رفتن لیت و لعل واں ویسی ہے
کیا کیا مجھ کو جنوں آتا ہے اس لڑکے کے بہانوں پر
بعد مرے سبحے کو میرے ہاتھوں ہاتھ ملک لیں گے
سو سو بار لیا ہے میں نے نام اس کا ان دانوں پر
دل کی حقیقت عرش کی عظمت سب کچھ ہے معلوم ہمیں
سیر رہی ہے اکثر اپنی ان پاکیزہ مکانوں پر
راہ چلو تم اپنی اپنی میرے طریق سے کیا تم کو
آنکھوں سے پردہ میں نے کیا ہے واں پاؤں کے نشانوں پر
عشق عجائب زور آور ہے کشتی سب کی پاک ہوئی
ذکر میرؔ ہے کیا پیری میں حرف و سخن ہے جوانوں پر
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1607
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.