بات کہو کیا چپکے چپکے بیٹھ رہو ہو یاں آکر
بات کہو کیا چپکے چپکے بیٹھ رہو ہو یاں آکر
ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جا کر
دل کا راز کیا میں ظاہر بلبل سے گلزار میں لیک
اس بے تہہ نے صحن چمن میں جان دی چلا چلا کر
جیسا پیچ و تاب پر اپنے بالیدہ تھا ویسا ہی
مار سیہ کو رشک سے مارا ان بالوں نے بل کھا کر
ڈھونڈتے تا اطفال پھریں نہ ان کے جنوں کی ضیافت میں
بھر رکھی ہیں شہر کی گلیاں پتھر ہم نے لا لا کر
ہاہا ہی ہی نے شوخ کی میرے تنگ کیا خوش رویاں کو
سرخ و زرد ہوئے خجلت سے چھوٹے ہاہا ہاہا کر
چاہ کا جو اظہار کیا تو فرط شرم سے جان گئی
عشق شہرت دوست نے آخر مارا مجھ کو رسوا کر
میرؔ یہ کیا روتا ہے جس سے آنکھوں پر رومال رکھا
دامن کے ہر پاٹ کو اپنے گریۂ زار سے دریا کر
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1611
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.