بہر فردوس ہو آدم کو الم کاہے کو
بہر فردوس ہو آدم کو الم کاہے کو
وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو
کہتے ہیں آوے گا ایدھر وہ قیامت رفتار
چلتے پھرتے رہیں گے تب تئیں ہم کاہے کو
یہ بھی اک ڈھب ہے نہ ایذا نہ کسو کو راحت
رحم موقوف کیا ہے تو ستم کاہے کو
نرگس ان آنکھوں کو جو لکھ گئے نا بینا تھے
اپنے نزدیک ہیں وے دست قلم کاہے کو
اس کی تلوار سے گر جان کو رکھتے نہ عزیز
مرتے اس خواری سے تو صید حرم کاہے کو
چشم پوشی کا مری جان تمہیں لپکا ہے
کھاتے ہو دیدہ درائی سے قسم کاہے کو
میری آنکھوں پہ رکھو پاؤں جو آؤ لیکن
رکھتے ہو ایسی جگہ تم تو قدم کاہے کو
دل کو کہتے ہیں کہ اس گنج رواں کا گھر ہے
اس خرابے میں کرے ہے وہ کرم کاہے کو
شور نے نام خدا ان کے بلا سر کھینچا
میرؔ سا ہے کوئی عالم میں علم کاہے کو
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1228
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.