بھروسا اسیری میں تھا بال و پر پر
بھروسا اسیری میں تھا بال و پر پر
سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر
سواران شائستہ کشتے ہیں تیرے
نہ تیغ ستم کر علم ہر نفر پر
کھلا پیش دنداں نہ اس کا گرہچہ
کنھوں نے بھی تھوکا نہ سلک گہر پر
جلے کیوں نہ چھاتی کہ اپنی نظر ہے
کسو شوخ پرکار رعنا پسر پر
نہ محشر میں چونکا مرا خون خفتہ
وہی تھا یہ خوابیدہ اس شور و شر پر
کئی زخم کھا کر تڑپتا رہا دل
تسلی تھی موقوف زخم دگر پر
سنا تھا اسے پاس لیکن نہ پایا
چلے دور تک ہم گئے اس خبر پر
ق
سر شب کہے تھا بہانہ طلب وہ
گھڑی ایک رات آئی ہوگی پہر پر
کوئی پاس بیٹھا رہے کب تلک یوں
کہو ہوگی رخصت گئے اب سحر پر
جہاں میں نہ کی میرؔ اقامت کی نیت
کہ مشعر تھا آنا مرا یاں سفر پر
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1609
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.