چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں
بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں
وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں
کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشق لیلیٰ میں
ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں
خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ یاں ہر دم
اگر ہجراں میں زندانی ہوں پر ہوں یوسفستاں میں
رکھا عرصہ جنوں پر تنگ مشتاقوں کی دوری سے
کسے مارا ہے اس گھتیے نے سنمکھ ہو کے میداں میں
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی
دمک الماس کی سی ہے ہماری چشم حیراں میں
خرابی آ گئی دینوں میں ملت گئی اسے دیکھے
ملے سے اس کے رخنے پڑ گئے لوگوں کے ایماں میں
نکل آتا ہے گھر سے ہر گھڑی ننگے بدن باہر
برا یہ آ پڑا ہے عیب اس آسائش جاں میں
ستم کے تیر اس کے میرے سینے میں بہت ٹوٹے
کیا جاتا ہے مشکل فرق اب دل اور پیکاں میں
ہوائے ابر میں کیا میرؔ ہنستا باغ میں وہ تھا
گری پڑتی ہے بجلی آج کچھ صحن گلستاں میں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1193
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.