دیکھ اس کو ہنستے سب کے دم سے گئے اکھڑ کر
دیکھ اس کو ہنستے سب کے دم سے گئے اکھڑ کر
ٹھہرے ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر
کیا کیا نیاز طینت اے ناز پیشہ تجھ بن
مرتے ہیں خاک رہ سے گوڑے رگڑ رگڑ کر
قد کش چمن کے اپنی خوبی کو نیو چلے ہیں
پایا پھل اس سے آخر کیا سرو نے اکڑ کر
وہ سر چڑھا ہے اتنا اپنی فروتنی سے
کھویا ہمیں نے اس کو ہر لحظہ پاؤں پڑ کر
پاۓ ثبات بھی ہے نام آوری کو لازم
مشہور ہے نگیں جو بیٹھا ہے گھر میں گڑ کر
دوری میں دلبروں کی کٹتی ہے کیونکے سب کی
آدھا نہیں رہا ہوں تجھ سے تو میں بچھڑ کر
اب کیسا زہد و تقویٰ دارو ہے اور ہم ہیں
بنت العنب کے اپنا سب کچھ گیا گھسڑ کر
دیکھو نہ چشم کم سے معمورۂ جہاں کو
بنتا ہے ایک گھر یاں سو صورتیں بگڑ کر
اس پشت لب کے اوپر دانے عرق کے یوں ہیں
یاقوت سے رکھے ہیں جوں موتیوں کو جڑ کر
نا سازگاری اپنے طالع کی کیا کہیں ہم
آیا کبھو نہ یاں ٹک غیروں سے یار لڑ کر
اپنے مزاج میں بھی ہے میرؔ ضد نہایت
پھر مر ہی کے اٹھیں گے بیٹھیں گے ہم جو اڑ کر
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0215
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.