دل کی تڑپ نے ہلاک کیا ہے دھڑکے نے اس کے اڑائی خاک
دل کی تڑپ نے ہلاک کیا ہے دھڑکے نے اس کے اڑائی خاک
خشک ہوا خون اشک کے بدلے ریگ رواں سی آئی خاک
صورت کے ہم آئنے کے سے ظاہر فقر نہیں کرتے
ہوتے ساتے روتے پاتے ان نے منہ کو لگائی خاک
پیچ و تاب سے خاک بھی میری جیسے بگولا پھرنے لگی
سر میں ہوا ہی اس کے بہت تھی تب تو ہوئی ہے ہوائی خاک
اور غبار کسو کے دل کا کس انداز سے نکلے آہ
روئے فلک پر بدلی سی تو ساری ہماری چھائی خاک
نعمت رنگا رنگ حق سے بہرہ بخت سیہ کو نہیں
سانپ رہا گو گنج کے اوپر کھانے کو تو کھائی خاک
اپنے تئیں گم جیسا کیا تھا یاں سر کھینچ کے لوگوں نے
عالم خاک میں ویسی ہی اب ڈھونڈی ان کی نہ پائی خاک
انس نہیں انسان سے اچھا عشق و جنوں اک آفت ہے
فرق ہوئے کیا چھوڑے ہے آدم میں اس کی جدائی خاک
ہو کے فقیر گلی میں اس کی چین بہت سا پایا ہم
لے کے سرہانے پتھر رکھا جائے فرش بچھائی خاک
قلب گداز ہیں جن کے وے بھی مٹی سونا کرتے ہیں
میرؔ اکسیر بنائی انھوں نے جن کی جہاں سے اٹھائی خاک
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1662
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.