دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں
حرف شناس نہ تھے جب تم تو بے پرسش تھا بوسۂ لب
ایک اک بات کی مشتاقوں سے سو سو اب تکراریں ہیں
عشق کے دیوانے کی سلاسل ہلتی ہے تو ڈریں ہیں ہم
بگڑے پیل مست کی سی زنجیروں کی جھنکاریں ہیں
وے بھویں جیدھر ہوں خمیدہ اودھر کا ہے خدا حافظ
یعنی جوہر دار جھکی خوں ریز کی دو تلواریں ہیں
وے وے جن لوگوں کو پھرتے آنکھوں ہم نے دیکھا تھا
حد نظر تک آج انھوں کی گرد شہر مزاریں ہیں
پیچ و تاب میں بل کھا کھا کر کوئی مرے یاں ان کو کیا
واں وے لیے مشاطہ کو یکسو بال ہی اپنے سنواریں ہیں
بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے ہیں یہ اب
میرؔ شکستہ دروازے ہیں گری پڑی دیواریں ہیں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1697
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.