گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں
کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق کو تصور
ہر لحظہ اس کے جلوے پیش نظر رہے ہیں
نکلے ہوس جو اب بھی ہو وار ہی قفس سے
شائستۂ پریدن دو چار پر رہے ہیں
کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر
اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں
کیا آج ڈبڈبائی دیکھو ہو تم یہ آنکھیں
جوں چشمہ یوں ہی برسوں ہم چشم تر رہے ہیں
نے غم ہے ہم کو یاں کا نے فکر کچھ ہے واں کا
صدقے جنوں کے کیا ہم بے درد سر رہے ہیں
پاس ایک دن بھی اپنا ان نے نہیں کیا ہے
ہم دور اس سے بے دم دودو پہر رہے ہیں
کیا یہ سرائے فانی ہے جائے باش اپنی
ہم یاں مسافرانہ آکر اتر رہے ہیں
ایسا نہ ہو کہ چھیڑے یکبار پھوٹ بہیے
ہم پکے پھوڑے کے اب مانند بھر رہے ہیں
اس میکدے میں جس جا ہشیار چاہیے تھے
رحمت ہے ہم کو ہم بھی کیا بے خبر رہے ہیں
گو راہ عشق میں ہو شمشیر کے دم اوپر
وسواس کیا ہے ہم تو جی سے گزر رہے ہیں
چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنیے
کہتے ہیں بعد مدت میرؔ اپنے گھر رہے ہیں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0891
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.