حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال کہنے کی کسے تاب اس آزار کے بیچ
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
آرزو مند ہے خورشید میسر ہے کہاں
کہ تنک ٹھہرے ترے سایۂ دیوار کے بیچ
کیا کہیں ہم کہ گلے ڈالے پھریں مستی میں
دانے سبحہ کے پرو رشتۂ زنار کے بیچ
رشک خوبی کا اسی کے جگر مہ میں ہے داغ
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے بیچ
مل گیا پھولوں میں اس رنگ سے کرتے ہوئے سیر
کہ تامل کیے پایا اسے گلزار کے بیچ
قدر گو تم نہ کرو میری متاع دل کی
جنس لگ جاوے گی یہ بھی کسو سرکار کے بیچ
گرد سر رفتہ ہیں اے میرؔ ہم اس کشتے کے
رہ گیا یار کی جو ایک ہی تلوار کے بیچ
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1122
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.