Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس

میر تقی میر

جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس

    تو بھی ٹک آن کھڑا ہو جو گنہ گار کے پاس

    درد مندوں سے تمہیں دور پھرا کرتے ہو کچھ

    پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس

    چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھا کر اتنی

    بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس

    خندہ و چشمک و حرف و سخن زیر لبی

    کہیے جو ایک دو افسون ہوں دل دار کے پاس

    داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر

    یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس

    خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے

    یہ بلا نکلی نئی زلف شکن‌ دار کے پاس

    در گل زار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں

    یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس

    کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم

    ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس

    دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا

    تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس

    مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آ کر

    خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس

    جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں

    یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس

    ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد

    ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس

    نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی

    اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس

    اختلاط ایک تمہیں میرؔ ہی غم کش سے نہیں

    جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دو چار کے پاس

    مأخذ :
    • کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0822

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے