جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفاکار کے پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہو جو گنہ گار کے پاس
درد مندوں سے تمہیں دور پھرا کرتے ہو کچھ
پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس
چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھا کر اتنی
بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس
خندہ و چشمک و حرف و سخن زیر لبی
کہیے جو ایک دو افسون ہوں دل دار کے پاس
داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر
یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے
یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس
در گل زار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں
یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس
کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم
ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس
دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس
مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آ کر
خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس
جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں
یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس
ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے اے زاہد
ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس
نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی
اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس
اختلاط ایک تمہیں میرؔ ہی غم کش سے نہیں
جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دو چار کے پاس
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0822
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.