کٹ کر گریں گے راہ میں مشتاق علف سے
کٹ کر گریں گے راہ میں مشتاق علف سے
مٹھ بھیڑ اگر ہو گئی اس تیغ بکف سے
جاتا ہے کوئی دشت عرب کو جو بگولا
کہہ دوں ہوں دعا مجنوں کو میں اپنی طرف سے
دریا تھا مگر آگ کا دریائے غم عشق
سب آبلے ہیں میرے درونے میں صدف سے
دل اور جگر یہ تو جلے آتش غم میں
جی کیونکے بچاؤں کہو اس آگ کی تف سے
شب اس کے سگ کو نے ہمیں پاس بٹھایا
ہم اپنے تئیں دور نہ کیوں کھینچیں شرف سے
چھاتی میں بھری آگ ہے کیا جس سے شب و روز
چنگاریاں گرتی ہیں مری پلکوں کی صف سے
اے میرؔ گدائی کروں دروازے کی اس کے
مانگوں ہوں یہی آٹھ پہر شاہ نجف سے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1298
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.