لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں (ردیف .. ی)
لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں
سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں
ہر آن کیا عوض ہے دعا کا بدی ولے
تم کیا کرو بھلے کا زمانہ رہا نہیں
روئے سخن جو ہے تو مرا چشم دل کی اور
تم سے خدانخواستہ مجھ کو گلہ نہیں
تلوار ہی کھنچا کی ترے ہوتے بزم میں
بیٹھا ہے کب تو آ کے کہ فتنہ اٹھا نہیں
مل دیکھے ایسے دلبر ہرجائی سے کوئی
بے جا نہیں ہے دل جو ہمارا بجا نہیں
ہو تم جو میرے حیرتئ فرط شوق وصل
کیا جانو دل کسو سے تمہارا لگا نہیں
آئینے پر سے ٹک نہیں اٹھتی تری نظر
اس شوق کش کے منہ سے تجھے کچھ حیا نہیں
رنگ اور بو تو دل کش و دلچسپ ہیں کمال
لیکن ہزار حیف کہ گل میں وفا نہیں
تیر ستم کا تیرے ہدف کب تلک رہوں
آخر جگر ہے لوہے کا کوئی توا نہیں
ان نے تو آنکھیں موند لیاں ہیں ادھر سے واں
ایک آدھ دن میں دیکھیے یاں کیا ہے کیا نہیں
اٹھتے ہو میرؔ دیر سے تو کعبے چل رہو
مغموم کاہے کو ہو تمہارے خدا نہی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0905
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.