لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے
لطف ہے کیا انواع ستم جو اس کے کوئی بیان کرے
گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے
ہم تو چاہ کر اس پتھر کو سخت ندامت کھینچی ہے
چاہ کرے اب وہ کوئی جو چاہت کا ارمان کرے
سودے میں دل کے نفع جو چاہے خام طمع سودائی ہے
وارا سارا عشق میں کیسا جی کا بھی نقصان کرے
حشر کے ہنگامے میں چاہیں داد عشق تو حسن نہیں
کاشکے یاں وہ ظالم اپنے دل ہی میں دیوان کرے
آتش خو مغرور سے ویسے عہدہ برا کیا عاشق ہو
دل کو جلاوے منت رکھے جی مارے احسان کرے
یمن عشق غم افزا سے کام نہایت مشکل ہے
اب بھی نہیں نومیدی دل کو شاید عشق آسان کرے
کہنے میں یہ بات آتی نہیں ہو سیر خدا کی قدرت کی
موند کر آنکھیں میرؔ اگر تو دل کی طرف ٹک دھیان کرے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1492
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.