مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام
مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام
دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام
اب چھیڑئیے جہاں وہیں گویا ہے درد سب
پھوڑا سا ہو گیا ہے ترے غم میں تن تمام
آیا تھا گرم صید وہ جیدھر سے دشت میں
دیکھا ادھر ہی گرتے ہیں اب تک ہرن تمام
آوارہ گرد باد سے تھے ہم پہ شہر میں
کیا خاک میں ملا ہے یہ دیوانہ پن تمام
کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا
اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام
اس کار دست بستہ پہ ریجھا نہ مدعی
کیونکر نہ کام اپنا کرے کوہ کن تمام
اک گل زمیں نہ وقفے کے قابل نظر پڑی
دیکھا برنگ آب رواں یہ چمن تمام
نکلے ہیں گل کے رنگ گلستاں میں خاک سے
یہ وے ہیں اس کے عشق کے خونیں کفن تمام
تہ صاحبوں کی آئی نکل میکدے گئے
گروی تھے اہل صومعہ کے پیرہن تمام
میں خاک میں ملا نہ کروں کس طرح سفر
مجھ سے غبار رکھتے ہیں اہل وطن تمام
کچھ ہند ہی میں میرؔ نہیں لوگ جیب چاک
ہے میرے ریختوں کا دوانہ دکن تمام
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0859
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.