نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے
نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے
آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے
جی غش کرے ہے اب تو رفتار دیکھ اس کی
دیکھیں نبھے ہے اپنی کس طور اس چلن سے
گر اس کی اور کوئی گرمی سے دیکھتا ہے
اک آگ لگ اٹھے ہے اپنے تو تن بدن سے
رنگیں خرامی کیا کیا لیتی ہے کھینچ دل کو
کیا نقش پا کو اس کے نسبت گل و سمن سے
دن رات گاہ و بے گہ جب دیکھو ہیں سفر میں
ہم کس گھڑی وداعی یا رب ہوئے وطن سے
دل سوختہ ہوں مجھ کو تکلیف حرف مت کر
اک آگ کی لپٹ سی نکلے ہے ہر سخن سے
دل کا اسیر ہونا جی میرؔ جانتا ہے
کیا پیچ پاچ دیکھے اس زلف پر شکن سے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1306
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.