پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا
پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا
کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یکسو کیا
عشق نے کیا کیا تصرف یاں کیے ہیں آج کل
چشم کو پانی کیا سب دل کو سب لوہو کیا
نکہت خوش اس کے پنڈے کی سی آتی ہے مجھے
اس سبب گل کو چمن کے دیر میں نے بو کیا
کام میں قدرت کے کچھ بولا نہیں جاتا ہے ہائے
خوبرو اس کو کیا لیکن بہت بد خو کیا
جانا اس آرام گہ سے ہے بعینہ بس یہی
جیسے سوتے سوتے ایدھر سے ادھر پہلو کیا
عزلتی اسلام کے کیا کیا پھرے ہیں جیب چاک
تو نے مائل کیوں ادھر کو گوشہ ابرو کیا
وہ اتو کش کا مجھی پر کیا ہے سرگرم جفا
مارے تلواروں کے ان نے بہتوں کو اتو کیا
ہاتھ پر رکھ ہاتھ اب وہ دو قدم چلتا نہیں
جن نے بالش خواب کا برسوں مرا بازو کیا
پھول نرگس کا لیے بھیچک کھڑا تھا راہ میں
کس کی چشم پر فسوں نے میرؔ کو جادو کیا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0713
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.