راضی ہوں گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں
راضی ہوں گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں
اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں
جی انتظار کش ہے آنکھوں میں رہ گزر پر
آ جا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں
آنکھیں جو کھل رہی ہیں مرنے کے بعد میری
حسرت یہ تھی کہ اس کو میں اک نگاہ دیکھوں
یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو بستے
کن آنکھوں سے اب اجڑا اس گھر کو آہ دیکھوں
دیکھوں تو چاند اب کا گزرے ہے مجھ کو کیسا
دل ہے کہ تیرے منہ پر بے مہر ماہ دیکھوں
بخت سیہ تو اپنے رہتے ہیں خواب ہی میں
اے رشک یوسف مصر پھر کس کو چاہ دیکھوں
چشم و دل و جگر یہ سارے ہوئے پریشاں
کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں
آنکھیں تو تو نے دی ہیں اے جرم بخش عالم
کیا تیری رحمت آگے اپنے گناہ دیکھوں
تاریک ہو چلا ہے آنکھوں میں میری عالم
ہوتا ہے کیونکے دل بن میرا تباہ دیکھوں
مرنا ہے یا تماشا ہر اک کی ہے زباں پر
اس مجہلے کو چل کر میں خوا نخواہ دیکھوں
دیکھوں ہوں آنکھ اٹھا کر جس کو تو یہ کہے ہے
ہوتا ہے قتل کیونکر یہ بے گناہ دیکھوں
ہوں میں نگاہ بسمل گو اک مژہ تھی فرصت
تا میرؔ روئے قاتل تا قتل گاہ دیکھوں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0296
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.