رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
غم سے پانی ہو کے کب کا بہ گیا میں ہوں کہاں
دست و دامن جیب و آغوش اپنے اس لائق نہ تھے
پھول میں اس باغ خوبی سے جو لوں تو لوں کہاں
عاشق و معشوق یاں آخر فسانے ہو گئے
جائے گریہ ہے جہاں لیلیٰ کہاں مجنوں کہاں
آگ برسی تیرہ عالم ہو گیا جادو سے پر
اس کی چشم پر فسوں کے سامنے افسوں کہاں
سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت
سرو کا مصرع کہاں وہ قامت موزوں کہاں
کوچہ ہر یک جائے دل کش عالم خاکی میں ہے
پر کہیں لگتا نہیں جی ہائے میں دل دوں کہاں
ایک دم سے قیس کے جنگل بھرا رہتا تھا کیا
اب گئے پر اس کے ویسی رونق ہاموں کہاں
ناصح مشفق تو کہتا تھا کہ اس سے مت ملے
پر سمجھتا ہے ہمارا یہ دل محزوں کہاں
باؤ کے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار
اب کہاں فرہاد و شیریں خسرو گل گوں کہاں
کھا گیا اندوہ مجھ کو دوستان رفتہ کا
ڈھونڈھتا ہے جی بہت پر اب انہیں پاؤں کہاں
تھا وہ فتنہ ملنے کی گوں کب کسی درویش کے
کیا کہیں ہم میرؔ صاحب سے ہوئے مفتوں کہاں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1176
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.