شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
کل درد دل کہا سو مرا منہ ابل گیا
بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا
دے گل کو آگ چار طرف میں نہ جل گیا
اس آہوئے رمیدہ کی شوخی کہیں سو کیا
دکھلائی دے گیا تو چھلاوا سا چھل گیا
دن رات خوں کیا ہی کیے ہم جگر کو پھر
گر پھول گل سے کوئی گھڑی جی بہل گیا
تیور بدلنے سے تو نہیں اس کے بے حواس
اندیشہ یہ ہے طور ہی اس کا بدل گیا
ہر چند میں نے شوق کو پنہاں کیا ولے
ایک آدھ حرف پیار کا منہ سے نکل گیا
کرتے ہیں نذر ہم کہ نہ الفت کریں کہیں
گر دل ضعیف اب کے ہمارا سنبھل گیا
چلنے لگے تھے راہ طلب پر ہزار شکر
پہلے قدم ہی پاؤں ہمارا بچل گیا
میں دہ دلہ تو آگے ہی تھا فرط شوق سے
طور اس کا دیکھ اور بھی کچھ دل دہل گیا
سر اب لگے جھکانے بہت خاک کی طرف
شاید کہ میرؔ جی کا دماغی خلل گیا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1325
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.