ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو
ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو
سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
اے عشق بے محابا دنیا ہو اور تو ہو
ایسے کہو گے کچھ تو ہم چپکے ہو رہیں گے
ہر بات پر کہاں تک آپس میں گفتگو ہو
کیا ہے جواب ظالم پرسش کے روز کہیو
جو رو سیاہ یہ بھی واں آ کے روبرو ہو
ق
پرخوں ہمارے دل سے کتنی ہے تو مشابہ
شاید کلی تجھے بھی اس گل کی آرزو ہو
خط اس کے پشت لب کا ساکت کرے گا تجھ کو
کہیو اگر تفاوت اس میں بقدر مو ہو
کھولے تھے بال کن نے ہنگام صبح اپنے
آئی ہے اے صبا تو ایسی جو مشک بو ہو
درویشی سے بھی اپنی نکلے ہے میرزائی
نقش حصیر تن پر ایسے ہیں جوں اتو ہو
مت التیام چاہے پھر دل شکستگاں سے
ممکن نہیں کہ شیشہ ٹوٹا ہوا رفو ہو
کہتے ہو کانپتا ہوں جوں بید عاشقی سے
تم بھی تو میرؔ صاحب کتنے خلاف گو ہو
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0920
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.