ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرائیے
ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرائیے
پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لائیے
ساکن دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے
تو خدا جانے کہاں ہے کیونکے تجھ کو پائیے
دور ہی سے ہوش کھو دیتی ہے اس کی بوئے خوش
آپ میں رہیے تو اس کے پاس بھی ٹک جائیے
ان دنوں رنگ اور کچھ ہے اس دل پر خون کا
حق میں میرے آپ ہی کچھ سوچ کر فرمائیے
جی ہی کھپ جاتا ہے طنز آمیز ایسے لطف سے
ہنس کے جب کہتا ہے سب میں آئیے جی آئیے
دل کے ویراں کرنے میں بیداد کی ہے تو نے ہائے
خوش عمارت ایسے گھر کو اس طرح سے ڈھائیے
رات دن رخسار اس کے چت چڑھے رہتے ہیں میرؔ
آفتاب و ماہ سے دل کب تلک بہلائیے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 1017
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.