اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش
رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا
کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات
کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین
آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا
اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر
جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا
جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا
کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا
خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا
میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا
ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار
ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا
جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ
پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا
جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں
وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا
پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ
دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا
بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر
دیکھا تھا ہم نے میرؔ کو کچھ تو بھلا ہوا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 0692
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.