یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے
سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے
تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے
تم اس خیال میں ہو کہ نام و نشاں رہے
آنسو چلے ہی آنے لگے منہ پہ متصل
کیا کیجے اب کہ راز محبت نہاں رہے
ہم جب نظر پڑیں تو وہ ابرو کو خم کرے
تیغ اپنے اس کے کب تئیں یوں درمیاں رہے
کوئی بھی اپنے سر کو کٹاتا ہے یوں ولے
جوں شمع کیا کروں جو نہ میری زباں رہے
یہ دونوں چشمے خون سے بھر دوں تو خوب ہے
سیلاب میری آنکھوں سے کب تک رواں رہے
دیکھیں تو مصر حسن میں کیا خواریاں کھنچیں
اب تک تو ہم عزیز رہے ہیں جہاں رہے
مقصود گم کیا ہے تب ایسا ہے اضطراب
چکر میں ورنہ کاہے کو یوں آسماں رہے
کیا اپنی ان کی تم سے بیاں کیجیے معاش
کیں مدتوں رکھا جو تنک مہرباں رہے
گہ شام اس کے مو سے ہے گہ رو سے اس کے صبح
تم چاہو ہو کہ ایک سا ہی یاں سماں رہے
کیا نذر تیغ عشق کو سر سبز میں کیا
اس معرکے میں کھیت بہت خستہ جاں رہے
اس تنگنائے دہر میں تنگی نفس نے کی
جوں صبح ایک دم ہی رہے ہم جو یاں رہے
اک قافلے سے گرد ہماری نہ ٹک اٹھی
حیرت ہے میرؔ اپنے تئیں ہم کہاں رہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 1004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.