یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
کتنا جی عاشق بیتاب کا مر جاتا ہے
جیسے گرداب ہے گردش مری ہر چار طرف
شوق کیا جانے لیے مجھ کو کدھر جاتا ہے
جوشش اشک میں ٹک ٹھہرے رہو پیش نظر
اب کوئی پل میں یہ سیلاب اتر جاتا ہے
زرد رخسار پہ کیوں اشک نہ آوے گل رنگ
آگے سے آنکھوں کے وہ باغ نظر جاتا ہے
زہ گریباں کی ہے خوں ناب سے تر ہوتی نہیں
سارا زنجیرۂ دامن بھی تو بھر جاتا ہے
واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب
ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو اپھر جاتا ہے
کیا لکھوں بخت کی برگشتگی نالوں سے مرے
نامہ بر مجھ سے کبوتر بھی چپر جاتا ہے
آن اس دلبر شیریں کی چھری شہد کی ہے
عاشق اک آن ہی میں جی سے گزر جاتا ہے
ہر سحر پیچھے اس اوباش کے خورشید اے میرؔ
ڈھال تلوار لیے جیسے نفر جاتا ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 3, Ghazal No- 1290
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.