میرے کاندھوں پہ
میرے اعصاب کی بنائی
ایک عمارت کا بوجھ تھا
یہ عمارت میرے وجود میں
کسی جمود محل سے عبارت تھی
جس کی فصیلیں میرے گماں میں آہنی تھیں
جن پہ مصنوعی سکوت کے آسیب کا سایہ تھا
میں اک موج بے کراں کی مانند
آگے کو بڑھ رہی تھی
جبکہ میرا وجود
اس کی دھارا پہ الٹا بہتا تھا
میں خوش تھی
ہاں شاید خوش ہی
کہ میرے اندر کی ان کہی وحشت
اظہار کی تمام دستکوں سے ماورا
کہیں مقفل کواڑوں کے پیچھے
دم گھٹنے سے ہلاک ہو چکی ہے
کہ میرے اندر کی ان سنی چیخیں
سماعتوں کی تمام تدبیروں سے بہرہ ور
مصلحت کے زینوں تلے
کب کی دفن ہو چکی ہیں
مگر
تم سے یہ ملاقات
مجھ پر گویا
حادثے کی مانند گزری ہے
سانحہ اپنی جون میں
کمال کا ہوا ہے
موت پہ میری جنم
خیال کا ہوا ہے
جمود محل اب
آوازوں کا کھنڈر ہے
جس کی آئینہ آنکھوں میں
میری وحشت کے عکس ناچتے ہیں
سکوت کا آسیب اب
کسی نہاں خانے میں ملبے اندر
اپنے ہونے کی دلیل میں
کھوکھلے قہقہے لگاتا ہے
اور منظر مجھ پہ ہنستا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.