بیٹی کے نام
مری بیٹی
بہ ظاہر تم بھی کتنی بے ضرر معلوم ہوتی ہو
سبھی کہتے ہیں
ماں کی طرح مدھم نقش
آنکھیں واجبی سی
اور رنگ اور روپ بھی ایسا نہیں
جو راستہ چلتے کو دیوانہ بنا دے
یا کہ بستی کے
جواں ہوتے ہوئے بیٹوں کی مائیں
دم بخود رہ جائیں
اور لڑکے درختوں کے تلے عمریں بتا دیں
بہ ظاہر تم میں ایسی کوئی بھی خوبی نہیں ہے
مگر جب بولتی ہو مجھ کو تم سے خوف آتا ہے
مری جاں باوجود اس کے
نہ میں ہاری محبت میں
نہ کوئی جھوٹ کا کانٹا ہی الجھا میرے دامن سے
مجھے تو آرزو ہی رہ گئی بس ہے وفائی کی
عجب کم بخت خواہش تھی
یہ عورت بھی عجب شے ہے
کہیں تو یہ سراپا جسم ہوتی ہے نری ٹھوکر
کہیں پر یہ سراپا دل نری عورت نری الفت
مگر ہم جس منافق عہد کی تخلیق ہیں اس میں
اگر عورت کہیں سہواً سراپا ذہن ہو جائے
تو گویا اک قیامت ہے
یہی تو ہے کہ جب تم بولتی ہو
ایک انجانا سا ڈر مجھ کو ستاتا ہے
تمہیں کیسے میں سمجھاؤں
جو ان تلووں میں کانٹے ہیں
جو اس سینے میں چھالے ہیں
جو ان رستوں میں قبریں ہیں
مگر پھر دھیان آتا ہے
کہ میں نے تو تمہارے راستے کے چن لئے کانٹے
چراغاں کر دیا قبروں پہ ٹھنڈے کر دئے چھالے
تمہارے واسطے تو پھول ہوں گے راستے سارے
مرا دل مسکراتا ہے
- کتاب : ایک دیا اور ایک پھول (Pg. 155)
- Author : عشرت آفریں
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.