Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوانگی

اکرام خاور

دیوانگی

اکرام خاور

MORE BYاکرام خاور

    بہت کچھ چاہتا تھا میں

    ہمیشہ چاہتا تھا میں

    کہ دنیا خوب صورت ہو

    کہ جیسی

    پیار کرتے وقت ہوتی ہے

    چاہتا تھا

    شام ہوتے ہی اتر آئے

    فلک سے چاند بچوں کی ہتھیلی میں

    کہ شب

    تاریک ہو جتنی مگر

    نم ہو کھنک ہو

    اور پورب کی ہوائیں

    سبک رفتار گزریں

    چھتوں پر اوس ہو

    اور آنگنوں میں کہکشاں اترے

    ہمیشہ چاہتا تھا میں

    کہ آنسو ہی نہیں ہوں

    اور اگر ہوں تو

    وفور سرکشی کے

    زباں میں کوئی لکنت

    اور ہونٹوں میں

    کوئی لرزش نہ ہو ہرگز

    اگر ہو تو

    محبت کی تپش میں

    خداؤں کی طرح قادر

    ہمارے باپ بوڑھے ہی نہ ہوں

    اور اپسراؤں اور پریوں سی

    حسیں محبوب مائیں

    اپنے بچوں کو نہ روئیں

    کسی بچے کی آنکھوں میں

    کبھی وحشت نہ در آئے

    کوئی دنیا سے نامحرم نہ گزرے

    جواں ہونے سے پہلے سارے بچے

    بھاگ جائیں اپنے گھر سے

    اور دنیائیں بسائیں

    یا کوئی بچہ

    کسی گھر سے نہ بھاگے

    ہمارے گاؤں کی الھڑ حسینہ کی جوانی

    اتنی جلدی تو نہ گزرے

    بہت دن بہت دن اور

    ٹھہرے

    اور جشن کی شب

    جب بساط رقص قائم ہو

    روشنی بردار چہرے بھی

    منور ہوں

    چاہتا تھا کہ جنہیں ہونے کا کوئی حق نہیں تھا

    ایسے سارے لفظ باہر ہوں

    زبانوں سے ہماری

    اور دنیا بھر کے سارے لوگ

    شاعر ہوں

    ہمیشہ چاہتا تھا

    بڑی معمولی چیزیں چاہتا تھا میں

    کہ جیسے چاہتا تھا

    ساتھ ایک لڑکی کا

    سرد یخ بستہ ہواؤں میں

    شرارے بھرنے والی

    ایک لڑکی

    یا کوئی مرطوب موسم

    یا کہ شبنم میں نہائی

    سیڑھیوں سے چاند تک بھیگی ہوئی اک رات

    شب سہرا

    ملائم گرم جوشی سے بنی دنیا

    حلاوت اور حدت سے بنی دنیا

    سینۂ شاعر میں اک مغرور پرچم

    ایک لڑکی

    ایک دنیا

    بہت معمولی چیزیں چاہتا تھا میں

    کہ جیسے چاہتا تھا

    زندگی میں کوئی موسیقی کوئی نغمہ

    آشنائی درد کے مضراب سے

    سرد زندگی کا کوئی

    برجستہ ترانہ

    ایک کمرہ اور بستر

    ایک رجائی

    میز اور کرسی

    کتابیں اور دوائیں

    دوستوں کے خط

    ایک کھڑکی اور تھوڑی چھت

    تھوڑی مستی اور بے خوفی

    میں یہ بھی چاہتا تھا

    اور وہ بھی چاہتا تھا

    میں سب کچھ چاہتا تھا

    بہت معمولی چیزیں چاہتا تھا میں

    بہت معمولی چیزوں پر ٹکی تھی زندگی میری

    مجھے افسوس ہے اس کا

    میری آنکھوں نے دیکھا تھا

    جہاں کو

    عارض محبوب کی صورت

    ہمارے ذہن میں

    ہر خواب کی تفصیل تھی

    ہر حسن کا امکان تھا

    آسماں کچھ بھی نہیں

    ایک کھیل کا میدان تھا

    بچوں کی خاطر

    اور سمندر محض ایک کانچ کی چادر

    جسے لکھنے کی خاطر

    میز پر رکھا گیا تھا

    واقعہ تو یہ ہے کہ

    دنیا

    مرے کمرے سے زیادہ

    کچھ نہیں تھی

    مجھے معلوم تھا

    کہ پھول کس گوشہ میں ہوں گے

    قلم ہوگا کہاں پر

    کس جگہ کھلیں گے بچے

    اور خنجر

    کس جگہ ہوگا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے