Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دکھتی ہڈیوں کی وکالت

محمد حنیف رامے

دکھتی ہڈیوں کی وکالت

محمد حنیف رامے

MORE BYمحمد حنیف رامے

    دکھتی ہڈیاں کہتی ہے آرام کرو اب

    دل کہتا ہے ابھی نہیں ابھی تو کام پڑا ہے سب

    مگر ایک اور ہی بولی بولتا ہے دماغ

    پہلے کون سا تیر مار لیا تھا آپ نے جو اب پھر چلے ہیں جوہر دکھانے

    سرونٹے کا ڈان کھوتے اور سرشار کا خدائی فوجداری بھی

    تڑپتے ہوں گے قبر میں پڑے پڑے

    آپ کی بے قراریاں دیکھ کر

    دنیا ہی تو بدل ڈالی آپ نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے

    اور کیا کہنے ہیں آپ کی سیاست کے

    سوتوں کو جگا دیا آپ نے

    زیر دستوں کو اٹھا دیا زبردستوں کو گرا دیا آپ نے

    سچ مچ کا انقلاب ہی تو برپا کر کے رکھ دیا آپ نے

    چھوڑ جانے دیجیے بہت ہو گئی جناب

    سنہرے حرفوں میں لکھا جا چکا ہے آپ کا نام ان لکھی تاریخ میں

    آپ وہ ہیرو ہیں کوئی گیت نہیں گاتا جس کے

    وہ گمنام سپاہی ہیں جسے صرف

    آسمان کی آنکھ نے دیکھا ہوتا ہے داد شجاعت دیتے

    اگر آپ کے ہاتھوں واقعی کوئی اچھا کام سرزد ہو گیا تھا تو

    یقیناً پتا ہوگا اس کا خدا کو

    وہ اس کا ضرور اجر دے گا آپ کو

    اور صبر سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے اجر

    صبر کیجیے ذرا

    دکھتی ہڈیوں کی بھی سن لیجیے ذرا

    اس خانہ خراب دل کی مان کر ہی تو آپ ہوئے ہیں خانہ خراب

    ہمیشہ بہکایا ہے اس نے آپ کو

    غلط سلط راستوں پر چلایا ہے آپ کو

    جہاں چپ رہنے میں مصلحت تھی وہاں بولنے پر اکسایا ہے آپ کو

    جب ہاتھ بڑھا کر جام اٹھانے کا وقت تھا تو

    انکساری کے چکر میں پھنسایا ہے آپ کو

    ذرا اپنے بدن سے پوچھیے اپنی عمر اور پھر پوچھ کر دیکھیے دل سے

    آپ ستر کے ہیں نا مگر بدن کہے گا سال

    اور دل بتائے گا چالیس سال

    اس دل پر خون کی گلابی نے

    حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اچھے بھلے انسان کا

    پڑھے لکھے شریف آدمی کو دھکیل دیا ہے

    سیاست کے قصاب خانے میں

    بھئی جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے

    آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ہر بری خبر پر

    ویسے کبھی خیر کی خبر بھی آئی ہے وطن عزیز سے

    یاد نہیں رہا آپ کے تو مرشد بھی کہتے تھے بار بار

    وہ کام ہماری ذمہ داری نہیں ہوتا جس کی انجام دہی کا سامان نہ دے خدا

    عمر فاروق کو زیب دیتا تھا فکر مند ہونا

    فرات کے کنارے بھوک سے مر جانے والے کتے کے لیے

    اس لیے کہ وہ تھے خلیفۂ وقت

    تو کن میں خواہ مخواہ

    آپ تو کوتوال بھی نہیں کسی شہر کے

    اور چلے ہیں پورے ملک کی فکر کرنے

    بلکہ ساری انسانیت کا غم پال رکھا ہے آپ نے تو

    میں نے پہلے بھی کہا شاعروں کی بک بک نہ سنا کریں آپ زیادہ

    بقول خدا وہ تو عادی ہیں غلط بیانی کے

    ہاہا کانٹا چبھے کسی کو تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    آپ کو اوروں کی پڑی ہیں پہلے اپنی تو نبیڑ لیں آپ

    چیرٹی بگنس ایٹ ہوم جناب

    آئیے سکون سے بیٹھے دو گھڑی

    زیادہ دیر کھڑے رہنے سے اور بڑھ جائے گا گھٹنے کا درد

    کیا خیال ہے سبز چائے کے بارے میں

    یا پھر پی لیجئے ٹھنڈا میٹھا روح افزا

    سینے آسمانی موسیقی باخ اور موتزارٹ کی

    ڈھیلا چھوڑیئے ذرا اعصاب کو

    سو جائیے سو جائیے نیند آ جائے اگر

    لوری دوں آپ کو

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    مأخذ :
    • کتاب : din kaa phool (Pg. 133)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے