ایک اجنبی سلسلہ
مجھ کو پہچان کی تشنگی
دشت و صحرا میں برسوں اڑائے پھری
میرا عفریت مجھ کو ملا
ریگ زار برہنہ کے ان ساحلوں پر
جہاں سے ابھرتا تھا برفاب وادی کا اک اجنبی سلسلہ
میں نے ہر ساعت قتل میں
اس سے پوچھا تھا زنجیر پا
صرف میری تھی کیوں کس لئے کس طرح
یہ عناصر کی فطرت کو کیا ہو گیا
دشت میں برف میں
میرے عفریت کا رنگ کیوں زرد تھا
ریت سے برف تک
انگنت رنگ تھے
اس نے ہم راز کیوں منتخب اس اجنبی کو کیا
جس کو پہچان کا درد حاصل نہ تھا
جو فراز تمنا کے قابل نہ تھا
میں نے تفریق کے ذکر سے
اپنے ہم زاد کو
دعوت کنبۂ جاوداں کا اثاثہ دیا
اس کو برہم کیا
اس کے جبڑوں میں خونخوار وہ آہنی اشتہا
آج ترتیب دی
جس کی تخلیق سے
وہ خداؤں کی آواز پر چھا گیا
میں صداؤں کی پہچان تھا
میں خمار تلاش فراواں سے سرشار تھا
مجھ پہ جنگل کی آنکھوں کے سفاک خنجر چلاتا ہوا
میرے امکان کے چیتھڑے کھا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.