عمل کی عزم کی اخلاص نیت کی ضرورت ہے
وطن سے اے وطن والو محبت کی ضرورت ہے
ضرورت ہے کہ اک دل اور اک آواز ہو جاؤ
حقیقت تو یہی ہے اب حقیقت کی ضرورت ہے
کہاں تک ملتوں کے اختلافات آئے دن ہوں گے
ہر اک ملت سے اب تو میل ملت کی ضرورت ہے
زبانی خادم ملک و وطن بننا تو ہے آساں
اگر مخدوم بننا ہے تو خدمت کی ضرورت ہے
تمہارا ہر عمل کردار اندرا کا نمونہ ہو
مروت کی صداقت کی حمیت کی ضرورت ہے
خیالی جنتیں بنتی رہیں بزم تصور میں
عمل سے جو بنے اب ایسی جنت کی ضرورت ہے
زباں سے جو کہو اپنی وہی دل کا ترانہ ہو
ہم آہنگی کو بھی ساز حقیقت کی ضرورت ہے
فقط پھولوں کی خوش رنگی سے اے تکمیلؔ کیا حاصل
جو دنیا کو بسانا ہے تو نکہت کی ضرورت ہے