عظمت آدم خاکی کا پرستار گرا
ایک مینار گرا
جس کی تنویر نے ذروں کو عطا کی تابش
جس کی تقریر نے توڑا ہے طلسم زر و سیم
جس کی تحریر نے اک خواب بنا خواب سحر
جس کی تعبیر میں اک قوم اٹھی قوم عظیم
وہی سردار وہی قافلہ سالار گرا
ایک مینار گرا
جس نے فرسودہ روایات کے ایوانوں میں
محنت و جشن مساوات کے پرچم لہرائے
جبر و بیداد و غلامی کے سیہ خانوں میں
تابش حریت فکر کے فانوس جلائے
پیکر نور نہیں خالق انوار گرا
ایک مینار گرا
جس نے اوہام پہ دانش کی کمندیں ڈالیں
جس کی آواز پہ طوفان بپھر جاتے تھے
نازی افواج کے سیلاب کو موڑا جس نے
غیظ سے جس کے شہنشاہ بھی تھراتے تھے
امن کا کوہ گراں صلح کا شہکار گرا
ایک مینار گرا
اپنے ہاتھوں میں لیے رخش بغاوت کی عناں
اٹھا آندھی کی طرح ابر کی صورت برسا
اب کوئی پوجے نہ پوجے یہ لکھا جائے گا
امن و انصاف و مساوات کا وہ دیوتا تھا
دے کے منزل کا نشاں کارواں سالار گرا
ایک مینار گرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.