فرار
میں کہ بچپن میں ایک دن گھر سے
ایسا بھاگا کہ بھاگتا ہی رہا
شہر در شہر بے گھری کا عذاب
آسماں میرے نام لکھتا رہا
میری خانہ بدوشیاں مجھ سے
کہہ رہی ہیں کہ ٹھہر جاؤں کہیں
اور کچھ تھک چکا ہوں اب میں بھی
چاہتا ہوں کہ ایک شب کے لئے
ٹھہر کر راستے میں دم لے لوں
اس سے پہلے کہ خیمہ نصب کروں
چند سایہ مرے تعاقب میں
دور ہی سے دکھائی دیتے ہیں
اور پھر بھاری بھاری قدموں کی
چاپ کانوں میں پڑنے لگتی ہے
فاصلہ بھی سمٹنے لگتا ہے
اور میں پھر سے پاگلوں کی طرح
ایک جانب کو دوڑ پڑتا ہوں
اور پھر سب ڈراؤنے سایہ
دھند کے پیچھے ڈوب جاتے ہیں
میں کہ اس بار بھی صدا کی طرح
ان کے چنگل سے بچ نکلتا ہوں
بچ نکلنا بھی اک عذاب سا ہے
سلسلہ ختم کیوں نہیں ہوتا
ایک جائے امان کی خاطر
کب تلک بھاگتا رہوں گا میں
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 114)
- Author :شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.