Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرو نانک دیو جی

درشن سنگھ

گرو نانک دیو جی

درشن سنگھ

MORE BYدرشن سنگھ

    ترے جمال سے اے آفتاب ننکانہ

    نکھر نکھر گیا حسن شعور رندانہ

    کچھ ایسے رنگ سے چھیڑا رباب مستانہ

    کہ جھومنے لگا روحانیت کا مے خانہ

    تری شراب سے مدہوش ہو گئے مے خوار

    دوئی مٹا کے ہم آغوش ہو گئے مے خوار

    ترا پیام تھا ڈوبا ہوا تبسم میں

    بھری تھی روح لطافت ترے تکلم میں

    نوائے حق کی کشش تھی ترے ترنم میں

    یقیں کی شمع جلائی شب توہم میں

    دلوں کو حق سے ہم آہنگ کر دیا تو نے

    گلوں کو گوندھ کے یک رنگ کر دیا تو نے

    تری نوا نے دیا نور آدمیت کو

    مٹا کے رکھ دیا حرص و ہوا کی ظلمت کو

    دلوں سے دور کیا سیم و زر کی رغبت کو

    کہ پا لیا تھا ترے دل نے حق کی دولت کو

    ہجوم ظلمت باطل میں حق پناہی کی

    فقیر ہو کے بھی دنیا میں بادشاہی کی

    تری نگاہ میں قرآن و دید کا عالم

    ترا خیال تھا راز حیات کا محرم

    ہر ایک گل پہ ٹپکتی تھی پیار کی شبنم

    کہ بس گیا تھا نظر میں بہشت کا موسم

    نفس نفس میں کلی رنگ و بو کی ڈھلتی تھی

    نسیم تھی کہ فرشتوں کی سانس چلتی تھی

    تری شراب سے بابا فرید تھے سرشار

    ترے خلوص سے بے خود تھے صوفیان کبار

    کہاں کہاں نہیں پہنچی ترے قدم کی بہار

    ترے عمل نے سنوارے جہان کے کردار

    تری نگاہ نے صہبائے آگہی دے دی

    بشر کے ہاتھ میں قندیل زندگی دے دی

    ترے پیام سے ایسی کی تھی مسیحائی

    ترے سخن میں حبیب خدا کی رعنائی

    ترے کلام میں گوتم کا نور دانائی

    ترے ترانے میں مرلی کا لحن یکتائی

    ہر ایک نور نظر آیا تیرے پیکر میں

    تمام نکہتیں سمٹی ہیں اک گل تر میں

    جہاں جہاں بھی گیا تو نے آگہی بانٹی

    اندھیری رات میں چاہت کی روشنی بانٹی

    عطا کیا دل بیدار زندگی بانٹی

    فساد و جنگ کی دنیا میں شانتی بانٹی

    بہار آئی کھلی پیار کی کلی ہر سو

    ترے نفس سے نسیم سحر چلی ہر سو

    رضائے حق کو نجات بشر کہا تو نے

    تعینات خودی کو ضرر کہا تو نے

    وفا نگر کو حقیقت نگر کہا تو نے

    ظہور عشق کو سچی سحر کہا تو نے

    جہان عشق میں کچھ بیش و کم کا فرق نہ تھا

    تری نگاہ میں دیر و حرم کا فرق نہ تھا

    بتایا تو نے کہ عرفاں سے آشنا ہونا

    کبھی نہ عاشق دنیائے بے وفا ہونا

    بدی سے شام و سحر جنگ آزما ہونا

    خدا سے دور نہ اے بندۂ خدا ہونا

    نشے میں دولت و زر کے نہ چور ہو جانا

    قریب آئے جو دنیا تو دور ہو جانا

    جو روح بن کے سما جائے ہر رگ و پے میں

    تو پھر نہ شہد میں لذت نہ ساغر مے میں

    وہی ہے ساز کے پردے میں لحن میں لے میں

    اسی کی ذات کی پرچھائیاں ہر اک شے میں

    نہ موج ہے نہ ستاروں کی آب ہے کوئی

    تجلیوں کے ادھر آفتاب ہے کوئی

    ابد کا نور فراہم کیا سحر کے لئے

    دیا پیام بہاروں کا دشت و در کے لئے

    دیے جلا دئے تاریک رہ گزر کے لئے

    جیا بشر کے لئے جان دی بشر کے لیے

    دعا یہ ہے کہ رہے عشق حشر تک تیرا

    زمیں پہ عام ہو یہ درد مشترک تیرا

    خدا کرے کہ زمانہ سنے تری آواز

    ہر اک جبیں کو میسر ہو تیرا عکس نیاز

    جہاں میں عام ہو تیرے ہی پیار کا انداز

    خلوص دل سے ہو پوجا خلوص دل سے نماز

    ترے پیام کی برکت سے نیک ہو جائیں

    یہ امتیاز مٹیں لوگ ایک ہو جائیں

    مأخذ:

    ہندوستاں ہمارا (Pg. 114)

      • ناشر: ہندوستانی بک ٹرسٹ، ممبئی
      • سن اشاعت: 1973

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے