ہر برس میں
ہر برس میں پچھلے برسوں میں بھٹک جاتا ہوں
ماضی میں تیرے ہاتھوں میں کاغذ کی سفیدی ہوں
میں کن لمحات کی گزری سوانح ہوں کہ تیرا سانس
میرے موسموں میں دھند کی چادر بنا ہے
انگلیوں کی شاخ اس تحریر کے الفاظ پر
پانی کی نرماہٹ سے ہلتی ہے
مری آنکھیں اشاروں کے کناروں پر کھڑی
آواز کی تنہائی میں
ہونٹوں کی لمبی سیڑھیوں پر دم بخود
پلکوں کی جنبش میں
کنوئیں کی سبز کائی کی طرح زندہ ہیں
اور ویران
کیسے قافلے جسموں کے صحراؤں کی جانب چل پڑے
خواہش کے گونگے ہاتھ میں
قربت کی میلی دھجیاں ہیں
ہر برس گزرے ہوئے برسوں کی دیواروں کے رخنوں میں
مرے سب خال و خط بھرتے گئے
گارانے ہیں
اب مری سانسوں میں اینٹوں کی قطاریں ہیں
مرے ماتھے پہ خود رو گھاس کا جنگل بسا ہے
اور میری نیندیں سیاہی کی جڑوں میں دور گہری ہیں
مرے سپنے کسی بے چہرہ عورت کی زیارت کے لئے
مدت ہوئی گھر سے گئے ہیں
ہر برس میں اپنے آدھے جسم کی تزئین کرتا ہوں
لبادوں میں لپٹ کر
اپنے ہونے کی گواہی کے کناروں تک پہنچتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.