انسان کا دل
دل بھی کیا شے ہے کہ بھولا بھی ہے عیار بھی ہے
خاکساری کا بھی رنگ اس میں ہے پندار بھی ہے
متحرک ہے کبھی اور کبھی ساکن ہے
یعنی خاموش بھی ہے مائل گفتار بھی ہے
کفر و اسلام کا اس کے نہیں کھلتا عقدہ
ہاتھ میں سبحہ بھی ہے دوش پہ زنار بھی ہے
مجلس عشق میں پاتا ہوں اسے میں مدہوش
محفل عقل میں دیکھا تو یہ ہشیار بھی ہے
تازگی چہرے پہ اس کے ہے اداسی ہے کبھی
اس کے آغوش میں صحرا بھی ہے گلزار بھی ہے
ہے بدی پر کبھی مائل کبھی نیکی پہ فدا
اس کی فطرت میں نہاں نور بھی ہے نار بھی ہے
درد و درماں سے بنائی ہے بہم اس کی سرشت
آپ یہ اپنا مسیحا بھی ہے بیمار بھی ہے
کعبے میں اس کو حقیقت کا شناسا پایا
صنمستاں میں یہ باطل کا پرستار بھی ہے
اس کی فطرت وہ سمندر ہے کہ جس میں پنہاں
موج اقبال بھی ہے ورطۂ ادبار بھی ہے
زاہدی کا اثر سجدہ ہے پیشانی پر
عاشقی کے لئے گل رنگ سے سرشار بھی ہے
ہے کبھی اہل تحکم کے چمن کا گلچیں
کبھی احرار کا یہ طرۂ دستار بھی ہے
کبھی عصیاں سے گریزاں کبھی طاعت سے نفور
مستحق خلد کا دوزخ کا سزاوار بھی ہے
ناز پر ہے کبھی آمادہ کبھی گرم نیاز
بے خبر اپنی خودی سے ہے خبردار بھی ہے
آنکھ ظاہر کی جو ہے نیند میں رہتی ہے مگن
اس کے اندر مگر اک دیدۂ بے دار بھی ہے
مدعی عشق حقیقی کا یہ رہتا ہے مگر
دولت حسن مجازی کا خریدار بھی ہے
معبد امن میں کرتا ہے یہ سجدے پیہم
ساعت جنگ میں آمادۂ پیکار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.