جواز
میں ایک خزاں دیدۂ آوارہ مسافر
دانستہ نکل آیا ہوں دور اپنے وطن سے
اب سوچ رہا ہوں کہ جوانی کا یہ اقدام
کیا کوئی جسارت ہے روایات کہن سے
اس طرح سے وجدان کے ہونٹوں پہ ہے نالہ
جیسے کوئی پابستہ مسافر سر راہے
یا جیسے کھنڈر میں کوئی منحوس پرندہ
پرہول طریقے سے لگاتار کراہے
دنیا کو غرض کیا ہے مری غمزدگی سے
کیوں سارا زمانہ مری جانب نگراں ہے
دل خوش ہو تو نالوں میں بھی اک رخ ہے طرب کا
دل ٹوٹے تو نغموں میں بھی اک طرز فغاں ہے
موتی کو نکلنا ہی پڑا بطن صدف سے
ہر گل چمنستان جہاں کا سفری ہے
ہر موج ہوا خانہ بدوشی کا ہے نوحہ
ہر ذرے کی تقدیر یہاں دربدری ہے
یہ پھول جو زینت ہیں کسی جیب و قبا کی
گلشن کی کسی شاخ تمنا پہ کھلے تھے
میدان کی وسعت میں یہ بکھرے ہوئے پتے
اک روز ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.