Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب

MORE BYانکتا گرگ

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    بہت اچھی ہوا کرتی تھی

    شریر سے زیادہ وہ خواب ہوا کرتی تھی

    مچلی سی وہ آنکھیں ہمدم

    بس خواب بنا کرتی تھی

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    بہت اچھی ہوا کرتی تھی

    نہ واسطہ لوگوں سے تھا

    نہ کھیلنا باتوں سے تھا

    نہ باتیں دنیا داری کی تھی

    نہ مطلب کی دنیا ساری تھی

    نہ قصے لوگوں کی نفرت کے تھے

    نہ حصہ ان کی ہی حسرت کے تھے

    جو ٹوٹ گئے کہیں راہ میں

    جو رہ گئے کہیں بس آہ میں

    راہیں ہر دم صاف تھی

    سب کی غلطیاں بھی معاف تھی

    دل میں بوجھ نہیں رکھتی تھی

    وہ خواب سے کھیلا کرتی تھی

    شریر سے زیادہ وہ خود خواب ہوا کرتی تھی

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    دل کی سچی ہوا کرتی تھی

    دوستوں کی کمی نہ تھی

    پر کھد سے زیادہ کسی سے جمی نہ تھی

    تب تو رب ہی بھگوان ہوا کرتے تھے

    اور بھگوان سے ہم باتوں میں دعا کرتے تھے

    زباں پہ شبد بہت سارے نہ ہوں

    پر بھاؤناؤں کی کمی نہ تھی

    مشکلوں کو بھی ہنس کر جیتے تھے

    ہاں روتے بے شک تھے

    پر کبھی حوصلے پست ہوں

    آنکھوں میں ایسی نمی نہ تھی

    بیتے کو چھوڑ دیا شکوؤں کو بھی موڑ دیا

    پیار جہاں سے ملتا تھا

    وہاں خود کو اس نے توڑ دیا

    امیدیں اس میں خوب بھری تھی

    غلطیاں اس نے بھی خوب کری تھی

    پر دل صاف تھا اوپر رب کا ہاتھ تھا

    تو بس باتوں میں ہی

    تو بس کانٹوں سے بھی

    دوستی سچی کیا کرتی تھی

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    ارادوں کی پکی ہوا کرتی تھی

    نہ زمانہ کا ڈر

    وہ تھی بے فکر

    اب زنجیریں اس پے لاد دی

    سو چیزیں دماغ میں ڈال دی

    ذمہ داری کے نام پر

    آزادی اس کی مار دی

    آنسو اس کی کمزوری تھے

    پر کمزوری سے وہ زار تھی

    اس لئے تو انہی کی آڑ میں سب نے

    جیت اس سے چھین لی

    ہر دم اس کو ہار دی

    پر کہا نہ وہ عام نہ تھی

    کھد سے وہ انجان نہ تھی

    اسے معلوم تھا کیا چل رہا ہے

    کون کس سے رہا ہے ہے

    کون کیسے سنبھل رہا ہے

    وہ کھد کو اٹھانے میں مانا کرتی تھی

    وقت آنے پر

    وہ کھد کو جھکانے میں مانا کرتی تھی

    مانا جیت چاہتی تھی

    پر کسی کو گرانا اس کی فطرت میں نہ تھا

    چوٹ دینا کسی کو اسی حسرت میں نہ تھا

    آخر روگ ہر تھی وہ

    باتوں سے اپچار کیا کرتی تھی

    لوگوں کو خواب دکھا کر

    خود اپچار ہوا کرتی تھی

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    بڑی اچھی ہوا کرتی تھی

    کہیں کھو گیا وہ بچپنا

    کہیں کھو گئی وہ بچی

    جو اچھی ہوا کرتی تھی

    جو سچی ہوا کرتی تھی

    اب بھی دل اس کا بچہ ہے پر دنیا دیکھ رو گیا

    نا امیدی کی اس بھیڑ میں وہ امیدوں سنگ بھی کھو گیا

    ایک آہ جو چھوٹی تھی امید اس کی جو لوٹی تھی

    اسے توڑ توڑ کر

    اب جوڑ جوڑ کر

    وہ آس جوڑنے چلی ہے

    روح جان کر اپنی وہ

    یہ راز چھوڑنے چلی ہے

    زنجیروں کی اس دنیا کے سب

    وہ بندھن توڑنے چلی ہے

    ہر ٹیڑھی راہوں کو وہ کچھ ایسے موڑ نے چلی ہے

    کے دکھ تو ہو پر حتاشہ نہ ہو

    ایک جنون ہو پر بے تحاشہ نہ ہو

    وہ چاہتی ہے

    ہر چاہت میں ایک چاہت ہو

    جو کسی سے غلط نہ ہونے دے

    جو کسی کو غلط نہ ہونے دے

    وہ چاہتی ہے

    ہر عادت میں ایک عادت ہو

    جو عادت بگڑنے نہ دے

    جو لت کو جنون سے بھڑنے نہ دے

    وہ چاہتی ہے

    ہر آہٹ میں ایک آہٹ ہو

    جو دل کو بھٹکنے نہ دے

    جو سہی کو غلط سے جھٹکنے نہ دے

    جو امیدوں کو راہ میں لٹکنے نہ دے

    وہ چاہتی ہے

    ہر بڑپن میں بھی بچپن ہو

    عمر چاہے پھر پچپن ہو

    وہ چاہتی ہے

    نا امیدی کے ان بھنوروں میں بھی

    امیدوں کا سورج نکلے

    پتھر کی ان مورت میں بھی

    کہیں تو چھپا موم پگھلے

    وہ چاہتی ہے

    کہ ایک دن کوئی جھٹکا ملے

    زندگی کو پتہ چلے

    کہ زندگی باقی ہے

    وہ چاہتی ہے

    وہ چاہتی ہے ایک سپنا پانا

    پھر سے اپنے سپنے جینا

    پھر سے ہر اک خواب بننا

    پھر سے ہر اک کانٹا چننا

    پر اس بار وہ چاہتی ہے

    پھر سے وہ اک بچی بننا

    جسے گایا کرتی تھی

    دنیا سنایا کرتی تھی

    وہ چاہتی ہے

    پھر سے وہ ایک بچی بننا

    کہ دنیا پھر سے گئے

    یہ دنیا پھر سنائے

    کہ ایک بچی ہوا کرتی تھی

    بہت اچھی ہوا کرتی تھی

    وہ خواب چننا جانتی تھی

    وہ خواب بننا جانتی تھی

    شریر سے زیادہ میں خود خواب ہوا کرتی تھی

    ایک بچی ہوا کرتی تھی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے