اے کہ تو عرصۂ ماضی میں مرے دل کے لئے
باعث لطف پر اسرار ہوا کرتی تھی
مرے حق میں ترے ہلکے سے تغافل کی ادا
صورت سنگ گراں بار ہوا کرتی تھی
مری نظروں میں یہ رنگینیٔ اوقات سحر
ترے رخسار کے غازے کی جھلک تھی جاناں
طشت تاریک میں بکھرے ہوئے تاروں کا ہجوم
تری معصوم نگاہوں کی دمک تھی جاناں
ترے ملبوس سے چھنتی ہوئی خوشبو کے سوا
بو کوئی دل کو مرے راس نہیں آتی تھی
میں کہ آہستہ تجھے کھینچ لیا کرتا تھا
تو جو شرما کے مرے پاس نہیں آتی تھی
یاد تو کر کہ میں کس طرح ترے ہونٹوں کو
سرخ پھولوں کی نزاکت سے ملا دیتا تھا
بارہا میں ترے ہلکے سے تبسم کے لئے
اپنے منہ کو ترے آنچل کی ہوا دیتا تھا
وقت بجلی کی سی رفتار پکڑ کر نکلا
ہائے افسوس وہ ایام حسیں بیت گئے
ایک رنگین فسانے کا یہ انجام ہوا
الفتیں ہار گئیں اور ستم جیت گئے
لیکن اے دوست وہ اک عرصۂ ماضی تھا فقط
اس کی یادوں کو دل و جاں سے مٹانا ہوگا
حسرتیں لے کے کہاں جائیں گے ہم صاحب دل
دل کے اک گوشۂ ویراں میں دبانا ہوگا
ورنہ بے سود محبت کے سبب جان جہاں
ہم زمانے کے تقاضوں سے الجھ بیٹھیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.