میں نے کب عشق کے آداب
میں نے کب عشق کے آداب سکھائے تم کو
کب کہا ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو
میں مسافر تھی ترے شہر میں اک روز فقط
رات آنکھوں میں بسر کرنے چلی آئی تھی
تو نے اس جسم مجسم کو اشارہ دے کر
اپنی بے لوث وفاؤں کا سہارا دے کر
حسن کو عشق کے پیکر میں بدل ڈالا تھا
میں جو الفت کو گراں یاب سمجھتی تھی کبھی
لعل و گوہر جسے نایاب سمجھتی تھی کبھی
تو نے وہ قیمتی پتھر مری جھولی میں بھرے
تو مری سوچ سے آگے مرے خوابوں سے پرے
مجھے الفت کے کئی شہر گھما لایا تھا
میں جو تتلی کے تعاقب میں پھرا کرتی تھی
پھول در پھول ہواؤں میں اڑا کرتی تھی
تو نے اک روز جو ہولے سے چھوا تھا مجھ کو
اسی لمحے میں یہ احساس ہوا تھا مجھ کو
میں ہی تتلی ہوں ہوا ہوں میں وفا کی خوشبو
میں ہی نازک سی کلی ہوں میں حیا کی خوشبو
میری آنکھوں سے جہاں بھر کے ستارے روشن
صرف دو چار نہیں سارے کے سارے روشن
پر اچانک ہی مجھے چھوڑ کے جانے والے
میری آنکھوں کو بھی پتھر کا بنانے والے
وہ ترا عشق سرابوں کی طرح ہی تھا نا
تو حقیقت میں بھی خوابوں کی طرح تھا جاناں
اب یہ سوچوں تو مجھے یہ بھی گماں ہوتا ہے
یار یہ روگ محبت بھی ہے ساحر کی طرح
جس کو لگ جائے پریتم ہی بنا دیتا ہے
پہلے عاشق کو دکھاتا ہے کئی خواب حسیں
پھر انہیں چھین کے آنکھوں کو سزا دیتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.