Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

من و سلویٰ

ن م راشد

من و سلویٰ

ن م راشد

MORE BYن م راشد

    ''خدائے برتر

    یہ دریوش بزرگ کی سرزمیں

    یہ نوشیروان عادل کی داد گاہیں

    تصوف و حکمت و ادب کے نگار خانے

    یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے

    آج پھر ابلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟''

    ہم اس کے مجرم نہیں ہیں جان عجم نہیں ہیں

    وہ پہلا انگریز

    جس نے ہندوستاں کے ساحل پہ

    لا کے رکھی تھی جنس سودا گری

    یہ اس کا گناہ ہے

    جو ترے وطن کی

    زمین گل پوش کو

    ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!

    یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے

    مگر فرنگی کی رہزنی نے

    اسی سے ناچار ہم کو وابستہ کر دیا ہے

    ہم اس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں

    وہ راہزن جو یہ سوچتا ہے

    ''کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ

    جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے

    اور اس کا آغوش آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے

    اور ایشائی

    قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژاد کاہل

    اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جا رہے ہیں''

    مگر یہ ہندی

    گرسنہ و پا برہنہ ہندی

    جو سالک راہ ہیں

    مگر راہ و رسم منزل سے بے خبر ہیں

    گھروں کو ویران کر کے

    لاکھوں صعوبتیں سہ کے

    اور اپنا لہو بہا کر

    اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی

    کہ شاید انہی کے بازو

    نجات دلوا سکیں گے مشرق کو

    غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے

    یہ سوچتے ہیں:

    یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے

    لا کے ان کو ترے وطن میں

    وہ آنچ بن جائے

    جس سے پھنک جائے

    وہ جراثیم کا اکھاڑا

    جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اٹھتی ہے

    اور دنیا میں پھیلتی ہے!

    میں جانتا ہوں

    مرے بہت سے رفیق

    اپنی اداس بے کار زندگی کے

    دراز و تاریک فاصلوں میں

    کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند

    آ نکلتے ہیں رہ گزاروں پہ

    جستجو میں کسی کے دو ''ساق صندلیں'' کی

    کبھی دریچوں کی اوٹ میں

    ناتواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ

    ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں

    وہ دست سائل

    جو سامنے ان کے پھیلتا ہے

    اس آرزو میں

    کہ ان کی بخشش سے

    پارۂ نان من و سلویٰ کا روپ بھر لے

    وہی کبھی اپنی نازکی سے

    وہ رہ سجھاتا ہے

    جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے!

    تو ان مناظر کو دیکھتی ہے!

    تو سوچتی ہے:

    یہ سنگ دل اپنی بزدلی سے

    فرنگیوں کی محبت ناروا کی زنجیر میں بندھے ہیں

    انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے!

    محبت ناروا نہیں ہے

    بس ایک زنجیر

    ایک ہی آہنی کمند عظیم

    پھیلی ہوئی ہے

    مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک

    مرے وطن سے ترے وطن تک

    بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں

    ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں

    مغول کی صبح خوں فشاں سے

    فرنگ کی شام جاں ستاں تک!

    تڑپ رہے ہیں

    بس ایک ہی درد لا دوا میں

    اور اپنے آلام جاں گزا کے

    اس اشتراک گراں بہا نے بھی

    ہم کو اک دوسرے سے اب تک

    قریب ہونے نہیں دیا ہے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے