نظم
تمہیں معلوم ہے
میں نے تو عرض حال میں
پہلے سے لکھا تھا
ہمیشہ تم سفر کرنا
اور اک تم ہو کہ میری اک ذرا سی بات پر
ناراض ہو اب تک
کہاں ہو تم
کہاں ہے روشنی جس سے مرا چہرہ منور تھا
کہاں ہے شام جو مدت سے میری دسترس میں تھی
کہاں ہیں دھول میں لپٹے
مہکتے دھوپ کے وہ خوش نما پاؤں
جو انجانے سفر میں
جب مری دہلیز کو چھوتے
تو میں فرط مسرت سے
ندی کے آئنے میں ایک دیکھے عکس کو ہی
آسماں کا دیوتا کہتا
کہاں ہے راہ بستی کا وہ نقارا
وہ اک آواز وہ اک جل ترنگ
جو دل سے ٹکرا کر
ہوا کو زندگی دیتے ہوئے پھولوں کو چھو کر
چاہنے والوں کو یہ پیغام دیتی تھی
محبت کا یہ حاصل ہے
ہمیشہ تم سفر کرنا
اور اک ایسا سفر کرنا
نہ جس کی سمت ہو کوئی
نہ کوئی راہ تا منزل
تمہیں معلوم ہے
میں نے تو عرض حال میں
پہلے سے لکھا تھا
مگر تم تو ہوا اور کہر کے ایوان میں ناراض بیٹھے ہو
پلٹ آؤ کہ جیون کی اندھیری رات کا تنہا سفر
کاٹے نہیں کٹتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.