نیم سرگوشی کا منظر
وہ لفظ کا رسیا ہے اس
کی دل نشیں تنظیم کا
ترتیب کا اصوات کا
گرتے ہوئے کو تھامتا
ہے راہ پیما کو سکھاتا ہے خرام ناز کا
انداز لطف لذت پرکار رقص منضبط کی آہنی
پرواز شاید زرد خاکی کو تمنائے سبک
بے جاں ہے لذت کی امیں
ترکیب کی تعریف کی زہرہ جبیں
یہ تربیت زادہ مسلسل رقص کرتا ہے سر بازار انبوہ فراواں داد دے
وہ سوچتا ہے رات بھر وہ آخری
ساحر ہے اب خوابوں کی بستی کا مگر
ہر رات کا منظر چٹختا ہے تو ریزہ ریزہ ہو کر شاہراہوں پر بکھرتا ہے یہاں
اس ہاؤ ہو میں روز و شب
بیدار ہوتا ہے انوکھا اجنبی
جو لفظ کے رسیا کا دشمن بھی نہیں
ہم زاد بھی شاید نہیں
جو نیم سرگوشی کا وحشی غیر پابستہ سا منظر نقش کرتا ہے پریشاں شہر میں
ترتیب کے ہر دائرے
سے لوگ کہتے ہیں وہ شاید ماورا
ہے اجنبی کو قتل کر دو دفن کر دو اجنبی اب زیر لب اب روز و شب
سرشار محشر خلق کرتا ہے ہراساں شہر میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.