aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نرمل میٹھے پانی کی تلاش

شفیق فاطمہ شعریٰ

نرمل میٹھے پانی کی تلاش

شفیق فاطمہ شعریٰ

MORE BYشفیق فاطمہ شعریٰ

    وہ مرا وہم

    کہ جھونکا سا کوئی سبز قبا تھا

    جسے دیکھا

    کسی چہکار کی خنکی بھی فضا میں جو بکھرتی

    تو یہ کھلتا

    کہ ابھی کھوج ہے آغاز ابھی کھوج ہے پرواز

    کبھی یوں بھی تو ہوتا ہے کہ ہو کھوج یہی

    راکھ کی مٹھی میں دبی ادھ جلی پتی

    وہی معمول شب و روز

    کہ بیداد ہی بیداد ہے

    رندا جو لگاتار رہے پھیرتا اپنا

    توبہ ہر زاویہ ہموار

    بہ ہر زاویہ چھل چھل کے گوارا

    کہیں ہو جائے نہ بے ساختہ فریاد

    یہ دھڑکا سا بنا رہتا ہے دل میں

    وہ تنے ٹوٹ رہے ہیں

    جو قدم تھے جو بھرم تھے

    کہ کوئی لفظ نہ پایا نہ کسی لفظ کا مفہوم

    جو پانی کا بدل ہو

    وہ تنے چھان کے خاموش تہیں خاک کی

    خاموش تہیں آنسوئے افلاک کی

    لوٹ آئے وہیں

    اپنی سسکتی ہوئی پیمودہ حدوں میں

    یہی آثار فضاؤں کے کھلے پن سے مزاحم

    جو گزر گاہ میں سیلاب کی ہوتے

    تو کسی موڑ پر مڑتے ہوئے

    شبنم کا نم و نرم بچھونا انہیں ملتا

    تو دو صد ریشہ عناصر وہ گلے بیج

    ذرا دیر کو ہو جاتے وہیں ڈھیر مزے میں

    کف سیلاب میں الجھے ہوئے خاشاک میں پوشیدہ

    وہ جڑ جڑ کے بہم

    چین سے سوتے

    کہ ابھی دیر ہے اعلان سحر ہونے میں

    اعلان سحر پہلے سنے جو بھی سحر خیز

    وہ اوروں کو بھی جاگ اٹھنے کا

    پیمان فراموش شدہ

    یاد دلائے

    یہی کلیوں کے تبسم میں گھلی یاد دہانی

    جو ٹھٹھر جائے سماعت

    تو سماعت کے لیے ایک انوکھی سا دھماکہ

    یہ مرا وہم شگونی مری زنجیر

    کوئی اندھ کار اتر آئے جو پایاب گمانوں میں

    تو پایاب گمانوں میں

    اتر آتی ہے گہرائی یقیں سی

    کوئی سیاح سی سیارسی جھلکار اتر آئے

    جو ٹھہرے ہوئے پانی میں

    تو ٹھہرے ہوئے پانی میں

    روانی کی مشاہد

    مری آشفتہ نگاہی

    وہ کہاں پھر بھی مگر لہر تلے لہر کی تعمیر

    کہ دے جس پہ جگر تشنہ تمنا بھی گواہی

    جو وہ اک سطح گراں مایہ ہے

    اک قعر بلا خیز

    ابھرتا ہوا ملاح

    اترتا ہوا اغواض

    جہاں وہم نہیں

    زندہ و تابندہ حقیقت ہے دل آویز

    کوئی ہیرے کی کنی سی کہ ہے طینت میں سرشتہ

    کبھی آواز کی لو بن گئی

    آفاق بہ آفاق پلٹتی ہوئی اوراق

    کبھی چھنتی رہی آنکھوں سے پیہم صفت اشک

    تو بدلتا ہوا رستہ

    تہ دریا سے دہکتی ہوئی بالو میں

    نکلتا ہوا رستہ

    جسے دیکھا

    وہ مرا وہم نہیں میرا یقیں تھا

    کوئی بوٹا جو کھڑا ہے

    تو یہی کام ہے اس کا

    کہ خزانے کا پتا پوچھنے والوں کو بتائے

    جو خلاؤں کا عقب ہے

    وہ خلا کب ہے خلا کب

    جو وہاں بھی

    اسی کملی کا کنارا ہو

    کسی دور کے امکاں سا جھلکتا

    تو وہاں بھی وہی پھیلاؤ چھلکتا ہے چمکتا ہے

    سحر رنگ دھندلکے میں

    سیہ چشم تجلی کا خنک تاب تلازم

    تو جگر سوختگان دو جہاں

    کون ہے پھر کھوج میں سرگرم

    یہ تم

    گھیر کے لائے گئے تم

    یا وہ نظر منزلت آرا نظر صاحب کوثر ہے

    کہ ہے گشت میں بیدار

    جسے دیکھا

    وہ اشارا سا کہ ہاں جوف عدم

    جوف عدم میں بھی جو ممکن ہے

    خود آرائی کے عالم میں یہ فیضان کا عالم

    تو یہ حیرت کا ٹھکانہ نہیں

    ٹوٹے ہوئے آئینو

    یہ جڑ جانے کی منزل

    یہ جلا پانے کی جا ہے

    مأخذ:

    سلسلۂ مکالمات (Pg. 80)

    • مصنف: شفیق فاطمہ شعریٰ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے