aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پند نامہ

جوش ملیح آبادی

پند نامہ

جوش ملیح آبادی

MORE BYجوش ملیح آبادی

    دلچسپ معلومات

    جوش نے اس نظم ''پند نامہ'' میں مجاز کو تلقین کی ہے کہ کثرت شراب نوشی سے باز آؤ ، ایک وقت اور مقدار میں پیو ، اور مجاز کی زندگی کی اہمیت کو جتایا ہے ۔ ۔ مجاز جیسے رند باش نے بھی اس کے جواب میں ایک نظم (بجواب پند نامہ) کہی ۔ اس واقعے سے منسلک ایک لطیفہ بھی مشہور ہے ، جس میں جوش نے کہا ہے کہ مجاز ! شراب پیو مگر سامنے گھڑی رکھ لیا کرو یعنی وقت پر پیو ۔اس پر مجاز نے بر جستہ کہا کہ میں گھڑا رکھ کر پیتا ہوں ۔

    اے مجاز اے ترانہ بار مجاز

    زندہ پیغمبر بہار مجاز

    اے بروۓ سمن وشاں گل پوش

    اے بہ کوۓ مغاں تمام خروش

    اے پرستار مہ رخان جہاں

    اے کماں دار شاعران جواں

    تجھ سے تاباں جبین مستقبل

    اے مرے سینۂ امید کے دل

    اے مجاز اے مبصر خد و خال

    اے شعور جمال و شمع خیال

    اے ثریا فریب و زہرہ نواز

    شاعر مست و رند شاہد باز

    ناقد عشوۂ شباب ہے تو

    صبح فردا کا آفتاب ہے تو

    تجھ کو آیا ہوں آج سمجھانے

    حیف ہے تو اگر برا مانے

    خود کو غرق شراب ناب نہ کر

    دیکھ اپنے کو یوں خراب نہ کر

    شاعری کو تری ضرورت ہے

    دور فردا کی تو امانت ہے

    صرف تیری بھلائی کو اے جاں

    بن کے آیا ہوں ناصح ناداں

    ایک ٹھہراؤ اک تکان ہے تو

    دیکھ کس درجہ دھان پان ہے تو

    ننگ ہے محض استخواں ہونا

    سخت اہانت ہے ناتواں ہونا

    استخوانی بدن دخانی پوست

    ایک سنگین جرم ہے اے دوست

    شرم کی بات ہے وجود سقیم

    ناتوانی ہے اک گناہ عظیم

    جسم اور علم طرفہ طاقت ہے

    یہی انسان کی نبوت ہے

    جو ضعیف و علیل ہوتا ہے

    عشق میں بھی ذلیل ہوتا ہے

    ہر ہنر کو جو ایک دولت ہے

    علم اور جسم کی ضرورت ہے

    کثرت بادہ رنگ لاتی ہے

    آدمی کو لہو رلاتی ہے

    خوش دلوں کو رلا کے ہنستی ہے

    شمع اختر بجھا کے ہنستی ہے

    اور جب آفت جگر پہ لاتی ہے

    رند کو مولوی بناتی ہے

    مے سے ہوتا ہے مقصد دل فوت

    مے ہے بنیاد مولویت و موت

    کان میں سن یہ بات ہے نشتر

    مولویت ہے موت سے بد تر

    اس سے ہوتا ہے کار عمر تمام

    اس سے ہوتا ہے عقل کو سرسام

    اس میں انساں کی جان جاتی ہے

    اس میں شاعر کی آن جاتی ہے

    یہ زمین آسمان کیا شے ہے

    آن جائے تو جان کیا شے ہے

    گوہر شاہ وار چن پیارے

    مجھ سے اک گر کی بات سن پیارے

    غم تو بنتا ہے چار دن میں نشاط

    شادمانی سے رہ بہت محتاط

    غم کے مارے تو جی رہے ہیں ہزار

    نہیں بچتے ہیں عیش کے بیمار

    آن میں دل کے پار ہوتی ہے

    پنکھڑی میں وہ دھار ہوتی ہے

    جوئے عشرت میں غم کے دھارے ہیں

    یخ و شبنم میں بھی شرارے ہیں

    ہاں سنبھل کر لطافتوں کو برت

    ٹوٹ جائے کہیں نہ کوئی پرت

    دیکھ کر شیشۂ نشاط اٹھا

    یہ ورق ہے ورق ہے سونے کا

    کاغذ باد یہ نگینہ ہے

    بلکہ اے دوست آبگینہ ہے

    ساغر شبنم خوش آب ہے یہ

    آبگینہ نہیں حباب ہے یہ

    روک لے سانس جو قریب آئے

    ٹھیس اس کو کہیں نہ لگ جائے

    تیغ مستی کو احتیاط سے چھو

    ورنہ ٹپکے گا انگلیوں سے لہو

    مستیوں میں ہے تاب جلوۂ ماہ

    اور سیہ مستیاں خدا کی پناہ

    خوب ہے ایک حد پہ قائم نشہ

    ہلکا پھلکا سبک ملائم نشہ

    ہاں ادب سے اٹھا ادب سے جام

    تاکہ آب حلال ہو نہ حرام

    جام پر جام جو چڑھاتے ہیں

    اونٹ کی طرح بلبلاتے ہیں

    زندگی کی ہوس میں مرتے ہیں

    مے کو رسوائے دہر کرتے ہیں

    یاد ہے جب جگرؔ چڑھاتے تھے

    کیا الف ہو کے ہن ہناتے تھے

    میری گردن میں بھر کے چند آہیں

    پاؤں سے ڈالتے تھے وہ بانہیں

    عقل کی موت علم کی پستی

    الاماں لعنت سیہ مستی

    اف گھٹا ٹوپ نشے کا طوفان

    بھوت عفریت دیو جن شیطان

    لات گھونسہ چھڑی چھری چاقو

    لب لباہٹ لعاب کف بدبو

    طنز آوازہ برہمی افساد

    طعن تشنیع مضحکہ ایراد

    شور ہو حق ابے تبے ہے ہے

    اوکھیاں گالیاں دھماکے قے

    مس مساہٹ غشی تپش چکر

    سوز سیلاب سنسنی صرصر

    چل چخے چیخ چناں چنیں چنگھاڑ

    چخ چخے چاؤں چاؤں چیل چلھاڑ

    لپا ڈکی لتام لام لڑائی

    ہول ہیجان ہانک ہاتھا پائی

    کھلبلی کاؤں کاؤں کھٹ منڈل

    ہونک ہنگامہ ہمہمہ ہلچل

    الجھن آوارگی ادھم اینٹھن

    بھونک بھوں بھوں بھنن بھنن بھن بھن

    دھول دھپا دھکڑ پکڑ دھتکار

    تہلکہ تو تڑاق تف تکرار

    بو بھبھک بھیے بکس برر بھونچال

    دبدبے دندناہٹیں دھمال

    گاہ نرمی و لطف و مہر و سلام

    گاہ تلخی و ترشی و دشنام

    عقل کی موت علم کی پستی

    الاماں لعنت سیہ مستی

    صرف نشے کی بھیگنے دے مسیں

    ان کو بننے نہ دے کبھی مونچھیں

    الاماں خوفناک کالا نشہ

    اوہ ریش و بروت والا نشہ

    اژدر مرگ او دیو خوں خواری

    الاماں نشۂ ''جٹادھاری''

    نشے کا جھٹ پٹا ہے نور حیات

    جھٹپٹے کو بنا نہ کالی رات

    نشے کی تیز روشنی بھی غلط

    چودھویں کی سی چاندنی بھی غلط

    ذہن انساں کو بخشتا ہے جمال

    نشہ ہو جب یہ قدر نور ہلال

    غرفۂ عقل بھیڑ تو اکثر

    پر اسے کچ کچا کے بند نہ کر

    رات کو لطف جام ہے پیارے

    دن کا پینا حرام ہے پیارے

    دن ہے عفریت آز کی کھنکا

    رات پازیب نازکی جھنکار

    دن ہے خاشاک خاک دھول دھواں

    رات آئینہ انجمن افشاں

    دن مسلح دواں کمر بستہ

    رات طاق و رواق و گلدستہ

    دن ہے فولاد سنگ تیغ علم

    رات کمخواب پنکھڑی شبنم

    دن ہے شیون دہائیاں دکھڑے

    رات مست انکھڑیاں جواں مکھڑے

    دن کڑی دھوپ کی بد آہنگی

    رات پچھلے پہر کی سارنگی

    دن بہادر کا بان بیر کی رتھ

    رات چمپاکلی انگوٹھی نتھ

    دن ہے طوفان جنبش و رفتار

    رات میزان کاکل و رخسار

    آفتاب و شراب ہیں بیری

    بوتلیں دن کو ہیں پچھل پیری

    کر نہ پامال حرمت اوقات

    رات کو دن بنا نہ دن کو رات

    پی مگر صرف شام کے ہنگام

    اور وہ بھی بہ قدر یک دو جام

    وہی انساں ہے خرم و خورسند

    جو ہے مقدار و وقت کا پابند

    میرے پینے ہی پر نہ جا مری جاں

    مجھ سے جینا بھی سیکھ ہیں قرباں

    اس کے پینے میں رنگ آتا ہے

    جس کو جینے کا ڈھنگ آتا ہے

    یہ نصائح بہت ہیں بیش بہا

    جلد سو جلد جاگ جلد نہا

    باغ میں جا طلوع سے پہلے

    تا نگار سحر سے دل بہلے

    سرو و شمشاد کو گلے سے لگا

    ہر چمن زاد کو گلے سے لگا

    منہ اندھیرے فضائے گلشن دیکھ

    ساحل و سبزہ زار و سوسن دیکھ

    گاہ آوارہ ابر پارے دیکھ

    ان کی رفتار میں ستارے دیکھ

    جیسے کہرے میں تاب روئے نکو

    جیسے جنگل میں رات کو جگنو

    گل کا منہ چوم اک ترنم سے

    نہر کو گدگدا تبسم سے

    جسم کو کر عرق سے نم آلود

    تاکہ شبنم پڑھے لہک کے درود

    پھینک سنجیدگی کا سر سے بار

    ناچ اچھل دندنا چھلانگیں مار

    دیکھ آب رواں کا آئینہ

    دوڑ ساحل پہ تان کر سینہ

    مست چڑیوں کا چہچہانا سن

    موج نو مشق کا ترانہ سن

    بوستاں میں صبا کا چلنا دیکھ

    سبزہ و سرو کا مچلنا دیکھ

    شبنم آلود کر سخن کا لباس

    چکھ دھندلکے میں بوئے گل کی مٹھاس

    شاعری کو کھلا ہوائے سحر

    اس کا نفقہ ہے تیری گردن پر

    رقص کی لہر میں ہو گم لب نہر

    یوں ادا کر عروس شعر کا مہر

    جذب کر بوستاں کے نقش و نگار

    ذہن میں کھول مصر کا بازار

    نرم جھونکوں کا آب حیواں پی

    بوئے گل رنگ شبنمستاں پی

    گن گنا کر نظر اٹھا کر پی

    صبح کا شیر دغدغہ کر پی

    تاکہ مجرے کو آئیں کل برکات

    دولت جسم و علم و عقل و حیات

    یہ نہ طعنہ نہ یہ الہنا ہے

    ایک نکتہ بس اور کہنا ہے

    غیبت نور ہو کہ کثرت نور

    ظلمت تام ہو کہ شعلۂ طور

    ایک سا ہے وبال دونوں کا

    تیرگی ہے مآل دونوں کا

    درخور صاحب مآل نہیں

    ہر وہ شے جس میں اعتدال نہیں

    شادمانی سے پی نہیں سکتا

    جس کو ہوکا ہو جی نہیں سکتا

    اے پسر اے برادر اے ہم راز

    بن نہ اس طرح دور کی آواز

    کوئی بیمار تن نہیں سکتا

    خادم خلق بن نہیں سکتا

    خدمت خلق فرض ہے تجھ پر

    دور ماضی کا قرض ہے تجھ پر

    عصر حاضر کے شاعر خوددار

    قرض داری کی موت سے ہشیار

    ذہن انسانیت ابھار کے جا

    زندگانی کا قرض اتار کے جا

    تجھ پہ ہندوستان ناز کرے

    عمر تیری خدا دراز کرے

    مأخذ:

    Intikhab-e-Josh (Pg. ebook-150 page-151)

    • مصنف: جوش ملیح آبادی
      • ناشر: کتاب محل، الہ آباد

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے