سال نو
گزشتہ سال تو جو تھا سو تھا یہ سال نو
خدا کرے کہ نئے موسموں کے ساتھ آئے
مٹا ہی دے جو جہاں سے وجود نفرت کا
محبتوں کے حسیں سلسلوں کے ساتھ آئے
یہ سنگ میل ہو اکیسویں صدی کے لیے
نئی امنگ نئے حوصلوں کے ساتھ آئے
جو دوست لکھیں نئی روشنی کا افسانہ
یہ سال ایسے نئے دوستوں کے ساتھ آئے
کہ ماند پڑنے لگے جن سے قمقموں کی چمک
اندھیری رات میں ان جگنوؤں کے ساتھ آئے
گزشتہ دور تو گزرا ہے کربناکی میں
نیا زمانہ حسیں منظروں کے ساتھ آئے
یہ سال وہ ہو جسے عشق کی صدی کہیے
وجود ذات کی سب دھڑکنوں کے ساتھ آئے
پرانے دل میں نئی دھڑکنوں کی آہٹ ہو
رخ و نگاہ سفید آئنوں کے ساتھ آئے
ہوں ذلتوں کے پرانے وہ داغ ماتھے پر
نہ وہم کی نئی رسوائیوں کے ساتھ آئے
عوام کے لیے یہ سال ہو بغاوت کا
نہ قائدوں کی ہی گمراہیوں کے ساتھ آئے
ہو نسل نو کی کشاکش کا کوئی اس میں وجود
نہ گزرے سالوں کی ان رنجشوں کے ساتھ آئے
قلم کی دنیا میں تنقید کی نمائش ہو
نہ تیکھے لہجے کڑے تیوروں کے ساتھ آئے
ملے رہائی ستاروں کی بالادستی سے
کچھ ایسی روشنی تیرہ شبوں کے ساتھ آئے
مرے کلام میں تلخی و تیرگی ہے بہت
یہ سال شعلہ رو شیریں لبوں کے ساتھ آئے
جگا دے خواب میں مدہوش نوجوانوں کو
یہ سال اتنی بڑی آندھیوں کے ساتھ آئے
چکھا دے جو نئی موجوں کی سختیوں کا مزہ
نہ کشتیوں کے نہ ہی ساحلوں کے ساتھ آئے
زمانے بھر کو کئی تیرگی کا شکوہ ہے
یہ سال کیوں نہ کئی سورجوں کے ساتھ آئے
زمیں کی چھاتی میں اک آگ سی سلگتی ہے
سو آسمان کڑی بارشوں کے ساتھ آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.