سانپ
ایک سانپ کو
میں نے تتلی بنا دیا
اور ایک کانٹے کو
تبدیل کر دیا پھول میں
بند گلی کے آخری سرے پر
جو دیوار تھی
میں نے اسے
شہر کی طرف کھلنے والا
دروازہ بنا دیا
زہر کے دریا کو
میں نے رکھ دیا
شہد کی بوتل میں
اور چھپا دیا
اس کی نظروں سے بھی
اس کی تصویر کو
جسے میں اپنا آئینہ سمجھتا تھا
اس کے بعد
جب وہ آئی اور دہرانے لگی
وہ لفظ
جو کبھی اس کے لیے بے اثر تھا
آج اس ایک لفظ کا
مجھ پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا
میں تو
اسے پہچان ہی نہ سکا
یاد بھی نہ رکھ سکا
سانپ کو
- کتاب : saarii nazmen (Pg. 162)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.