سراب
وقت کے اس صحرا میں کب سے
کرب زدہ لمحوں کا بھاری بوجھ اٹھائے
رستہ رستہ بھٹک رہا ہوں
صحرا صحرا ریگ رواں کے سوکھے دریا
اور میں پیاسا
پور پور سے چٹخ رہا ہوں
لیکن پھر بھی تیز قدم ہوں
شاید دریا مل جائے گا
شاید روح کی پیاس بجھے گی
صحرا میں تو قدم قدم پر
بہتے دریاؤں کے دھوکے
چاروں سمت نظر آتے ہیں
لہراتے ہیں
پاس پہنچ کر کھو جاتے ہیں
ریت کے سارے دریا مجھ میں
اندر اندر سوکھے آنسو ہو جاتے ہیں
پیاس بڑھاتی پاس بلاتی ریت کی لہریں
پھر سے نظر میں آ جاتی ہیں
پھر سے اس صحرا کے سفر میں
امیدیں سی بندھ جاتی ہیں
کسی سراب کو جان کے دریا
تیز قدم پھر ہو جاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.